سوال: قرآن کا معنی کیا ہوتا ہے؟
جواب: قرآن کا معنی ہوتا ہے" پڑھنا" تلاوت" کرنا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےخود قرآن مجید میں فرمایا: اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚ بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے۔[سورہ قیامہ،آیت:۱۷]
سوال: قرآن کا نزول کب سے شروع ہوا؟
جواب: رمضان المبارک کی ایک بابرکت رات " لیلۃ القدر" میں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر قرآن نازل کیا۔پھر وہاں سے ضرورت کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا۔قرآن کا نزول اس وقت شروع ہوا جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف ۴۰/سال کی ہوئی۔سب سے پہلے غار حرا میں"سورہ علق" کی پہلی ۵۔آیتیں نازل ہوئیں۔
سوال:قرآن کس طرح سے نازل ہوتا تھا؟
جواب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقے سے قرآن نازل ہوتا تھا۔[۱] گھنٹی بجنے کی طرح آواز سنائی دیتی تھی،اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہو جاتا۔جب اس طریقے سے قرآن نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔[۲] حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو سناتے۔ایسے موقع پر حضرت جبرئیل زیادہ تر مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں آتے۔ [۳] حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصلی شکل میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغام سناتے۔ایسا صرف تین بار ہوا۔پہلی بار اعلان نبوت کے ایک دم شروع زمانے میں۔دوسری بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر اور تیسری بار معراج کے موقع پر۔[۴] بغیر کسی واسطے کے اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام فرمایا۔ایسا معراج کے موقع پر ہوا اور اِسی موقع پر نماز فرض ہوئی۔
سوال:مکمل قرآن کتنے سالوں میں نازل ہوئی؟
جواب: تقریبا تئیس سالوں میں۔
سوال: قرآن کس لئے نازل کیا گیا؟
جواب: لوگوں کی ہدایت کے لئے۔تاکہ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور دنیا وآخرت میں کامیاب ہو سکے۔
سوال: قرآن کی حفاظت کس طرح سے کی گئی؟
جواب: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو طرح سے قرآن کی حفاظت کی گئیں۔[۱] زبانی یاد کرکے۔[۲] اسے لکھ کر کے۔
سوال: قرآن لکھنے والے صحابہ کون کون تھے؟
جواب: ۱: حضرت ابوبکر ۔۲:حضرت عمر۔۳: حضرت عثمان۔۴:حضرت علی۔۵: حضرت ابی بن کعب۔۶:حضرت عبد اللہ بن ابی سرح۔۷: حضرت زبیر بن عوام ۔۸:حضرت خالد بن سعید۔۹:حضرت ابان بن سعید بن العاص۔۱۰:حضرت حنظلہ بن ربیع۔۱۱: حضرت معیقب بن ابی فاطمہ۔۱۲: حضرت عبد اللہ بن ارقم۔۱۳:حضرت شرحبیل بن حسنہ۔۱۴: حضرت عبد اللہ بن رواحہ۔۱۵:حضرت عامر بن فہیرہ۔۱۶: حضرت عمروبن العاص۔۱۷: حضرت ثابت بن قیس۔۱۸: حضرت مغیرہ بن شعبہ۔۱۹: حضرت خالد بن ولید۔۲۰:حضرت امیر معاویہ۔۲۱:حضرت زید بن ثابت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ ان کے علاوہ اور بھی صحابہ کےنام کتابوں میں مذکورہیں۔اِن صحابہ کو" کاتبین وحی" کہا جاتا ہے۔
سوال: قرآن کن چیزوں پر لکھا جاتا تھا؟
جواب : اس زمانہ میں عرب میں کاغذ کمیاب تھے اس لیے اسے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھا جاتا تھا۔
سوال: قرآن کو ایک جگہ ایک کتاب کی شکل میں کس نے جمع کیا؟
جواب: یہ کام سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کروایا۔ان کے زمانے میں جنگ یمامہ ہوئی،اس میں بہت سارے حافظ صحابہ شہید ہوئے،تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ قرآن کو ایک جگہ ایک کتاب کی شکل میں جمع کر دیا جائے تو حضرت ابو بکر نے ان کے مشورے کو مانتے ہوئے اِس کام کو کرنے کی ذمہ داری حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو دیا جو مکمل قرآن کے حافظ ہونے کے ساتھ عہد رسالت میں قرآن لکھنے والے صحابہ میں سے تھے۔تو انہوں نے سب سے پہلے قرآن مجید کو ایک جگہ ایک کتاب کی شکل میں جمع فرمایا۔پھر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام عرب سے نکل کر ان ملکوں میں بھی دور دور تک پھیل گیا جن کی زبان عربی نہیں تھی۔ہرجگہ کے لوگ اُن صحابہ یا تابعین سے قرآن سیکھتے تھے جن کی وجہ سے وہ اسلام قبول کرتے۔اور صحابہ نے حضور سے قرآن الگ الگ قرأتوں میں سیکھا تھا تو جس صحابی نے جس قرأت کے مطابق حضور سے سیکھا تھا وہ اپنے شاگردوں کو اُسی طرح قرآن پڑھنا سیکھایا۔بعد میں چل کر لوگ اپنی قرأت کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھنے لگے جبکہ قرآن کو مختلف قرأتوں میں پڑھنے کی اجازت خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔جب اختلاف بڑھ گیا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دیا اور ان سے فرمایا کہ مکمل قرآن صرف ایک قرأت کے مطابق تیار کرے۔جب تیار ہوگیا تو ہر جگہ وہی بھیج دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ سبھی لوگ اسی کے مطابق قرآن سیکھے اور سیکھائے۔اس طرح سے یہ اختلاف ختم ہوگیا۔
سوال: قرآن شریف کی سب سے پہلی آیات سورہ علق کی نازل ہوئی لیکن آج جو قرآن ہمارے سامنے ہے اس میں سب سے پہلے سورہ فاتحہ ہے۔اسی طرح بہت ساری سورتیں ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئیں وہ بعد میں ہیں اور جو ہجرت کے بعد مدینے میں نازل ہوئیں وہ پہلے ہیں۔ایسا کیوں؟
جواب: قرآن شریف کی ایک سورہ کی ساری آیات ایک ساتھ نازل نہیں ہوئیں بلکہ مختلف اوقات میں نازل ہوئیں۔جب کوئی آیت نازل ہو تی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن لکھنے والے صحابہ میں سے کسی کو بلاتے اور فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورہ میں فلاں آیت کے بعد لکھ دو۔اس طرح الگ الگ سورہ مکمل ہوئی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے سامنے اسی ترتیب سے تلاوت بھی فرماتے ۔اور خاص طور سے رمضان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل امین کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے،چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ " ہر سال رمضان میں حضرت جبرئیل امین کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا دور فرماتے اور جس سال حضور کا وصال ہوا اس سال دو مرتبہ قرآن کا دور فرمایا"۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ترتیب کے ساتھ قرآن کا دور فرمایا اسی ترتیب سے قرآن مرتب ہوا۔اور اسی ترتیب کے ساتھ صحابہ نے بھی قرآن حفظ کیا اور وہی ترتیب آج بھی ہے۔یعنی کون سورہ پہلے ہوگا اور کون بعد میں یہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترتیب دیا۔
سوال: قرآن مجید میں کتنے پارے،کتنی سورتیں،کتنے رکوع،کتنی آیتیں اور کتنی منزلیں ہیں؟
جواب: ۳۰/پارے،۱۱۴/سورتیں،۵۴۰/رکوع،۶۶۶۶/آیتیں اور ۷/منزلیں ہیں۔
سوال: ۳۰/پاروں اور سات منزلوں میں قرآن کو کیوں تقسیم کیا گیا ہے؟
جواب: تیس پاروں میں ،اس لئے تاکہ جو شخص ایک مہینے میں قرآن ختم کرنا چاہے وہ ہر دن ایک ایک پارہ پڑھے۔اور سات منزلوں میں اس لئے تاکہ جو لوگ ایک ہفتے میں مکمل قرآن پڑھنا چاہیں وہ ہردن ایک ایک منزل کی تلاوت کرے۔
سوال: قرآن میں کتنی طرح کی سورتیں ہیں؟
جواب: دو طرح کی۔ایک مکی اور دوسری مدنی۔جو سورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل نازل ہوئیں ان کو" مکی سورت" کہا جاتا ہے۔وہ کل ۸۶/ہیں ۔اور جو سورتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ان کو"مدنی" کہا جاتا ہے۔
سوال:قرآن شریف میں نقطہ،زبر،زیر اور پیش وغیرہ کس نے لگایا؟
جواب: قرآن شریف میں پہلے نقطے،زبر،زیر اور پیش وغیرہ لکھے ہوئے نہیں تھے۔مگر جب اسلام ہر طرف پھیل گیا اور باہر کے لوگوں سے قرآن پڑھنے میں غلطیاں ہونے لگیں تو اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے حجاج بن یوسف سے اس کا کو انجام دینے کے لئے کہا جو اس وقت عراق کا گورنر تھا۔اس نے اس کا م کو کرنے کے لئے حسن اور یحییٰ بن یعمر کو حکم دیا۔اور ان دونوں نے مل کر اس کام کو پورا کیا۔[یہ علامہ قرطبی کا بیان ہے] جبکہ علامہ زبیدی نے کتاب الطبقات میں مبرد کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ:سب سے پہلے اس کام کو ابوالاسود دوئلی نے انجام دیا۔
نوٹ: عبد الملک بن مروان کا ۶۶/ہجری میں بادشاہ بنے اور ۸۷/ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔اور ابو الاسود کا ۶۹/ہجری میں انتقال ہوا ۔اس اعتبار سے قرآن شریف میں نقطہ،زبر،زیر اور پیش وغیرہ لگانے کا کام ۶۶/ہجری سے ۶۹/ہجری کے درمیان ہوا۔
سوال: سورتوں کے نام جیسے سورہ فاتحہ،سورہ بقرہ،سورہ اخلاص وغیرہ کس نے رکھا؟
جواب: احادیث کریمہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ سورتوں کے نام خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا جیسے مختلف احادیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورتوں کا نام لے کر ان کی فضیلت بیان فر مایا۔اور کچھ سورتوں کے نام صحابہ نے اور کچھ کے نام بعد کے لوگوں نے دیا۔
سوال: قرآن شریف کا سب سے پہلے ترجمہ کس نے کیا اور کس زبان میں؟
جواب:سب سے پہلے قرآن کا ترجمہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فارسی زبان میں کیا۔[صرف سورہ فاتحہ کا]
سوال: قرآن مجید کو تفصیل سے سمجھانے والی کچھ کتابوں کے نام بتائیے۔
جواب: قرآن مجید کو تفصیل سے سمجھانے والی کتابوں کو"تفسیر کی کتاب" کہتے ہیں۔کچھ کتابیں یہ ہیں۔تفسیر ابن عباس۔تفسیر قرطبی،تفسیر بیضاوی،تفسیر خازن،تفسیر روح البیان،تفسیر روح المعانی،تفسیر مدارک۔تفسیر جلالین وغیرہ۔ یہ سب عربی زبان میں ہیں۔تفسیر کی بہت ساری کتابیں اردو زبان میں بھی لکھی گئیں ہیں۔کچھ کے نام یہ ہیں۔ تفسیر تبیان القرآن، تفسیر ضیاء القرآن، اشرف التفاسیر،تفسیر صراط الجنان،تفسیر خزائن العرفان وغیرہ۔
سوال:قرآن کا ہمارے اوپر کیا حق ہیں؟
جواب: قرآن مجید کے یہ حقوق ہیں۔[۱] اس کی صحیح طریقے سے تلاوت کرنا۔[۲] اس کو سمجھنا۔[۳] اس کے احکام پر عمل کرنا۔[۴] دوسروں کو اس کی تعلیم دینا۔[۵] اس کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کرنا۔[۶] ہر حال میں اس کا ادب کرنا اور اس کی بے ادبی ہونے سے بچانا۔
سورہ فاتحہ کی فضیلت سورہ بقرہ کی فضیلت آیت الکرسی کی فضیلت سورہ بقرہ کی آخری آیات کی فضیلت سورہ آل عمران کی فضیلت سورہ کہف کی فضیلت سورہ دخان کی فضیلت سورہ رحمٰن کی فضیلت سورہ واقعہ کی فضیلت سورہ حشر کی فضیلت سورہ ملک کی فضیلت سورہ زلزال کی فضیلت سورہ تکاثر کی فضیلت سورہ کافرون کی فضیلت سورہ اخلاص کی فضیلت سورہ فلق اور ناس کی فضیلت